27 ویں ترمیم پر بڑی بحران پیدا ہونے کا خطرہ

27 ویں ترمیم پر بڑی بحران پیدا ہونے کا خطرہ

قانونی ماہرین، وکلا اور دیگر کئی کڑی تنقید
27 ویں ترمیم پر بڑی بحران پیدا ہونے کا خطرہ

ویب ڈیسک

|

14 Nov 2025

27ویں آئینی ترمیم کے بعد ملک بھر کی وکلا اور قانونی ماہرین نے عدلیہ سے متعلق کی گئی تبدیلیوں پر سخت ردِعمل دیا ہے۔ ناقدین کے مطابق نئی ترمیم سے عدلیہ کی آزادی متاثر ہوتی ہے اور حکومت کو عدالتی معاملات پر غیر ضروری اختیار مل جاتا ہے۔

ترمیم کے خلاف احتجاج اُس وقت مزید بڑھ گیا جب سپریم کورٹ کے دو جج—جسٹس منصور علی شاہ اور جسٹس اطہر من اللہ—جمعرات کو اپنے عہدوں سے مستعفی ہوگئے۔ دونوں ججوں نے چیف جسٹس آف پاکستان کو پہلے ہی مکمل کورٹ اجلاس بلانے کا کہا تھا، لیکن کارروائی نہ ہوتے دیکھ کر انہوں نے استعفیٰ دینے کا فیصلہ کیا۔

اسی روز جسٹس امین الدین خان کو نئی قائم ہونے والی وفاقی آئینی عدالت (FCC) کا پہلا چیف جسٹس مقرر کر دیا گیا۔ صدر آصف علی زرداری نے 59 شقوں پر مشتمل ترمیمی بل دونوں ایوانوں سے منظوری کے بعد دستخط کرکے اسے آئین کا حصہ بنا دیا۔

پاکستان انسٹیٹیوٹ آف لیجسلیٹو ڈویلپمنٹ کے صدر نے ایک بیان میں کہا کہ دونوں ججوں نے اصولی مؤقف اپناتے ہوئے مستعفی ہوکر "باوقار فیصلہ" کیا۔ ان کے مطابق یہ دونوں جج عدلیہ کے سب سے آزاد اور علمی طور پر مضبوط دماغ تھے، اور ان کا جانا عدلیہ کا بڑا نقصان ہے۔

وکیل سمیرہ کھوسہ نے کہا کہ نئی آئینی عدالت دراصل حکومت کے زیرِ اثر چلے گی اور اسے کسی قسم کا اعتماد حاصل نہیں ہوگا۔ ان کے مطابق ترمیم نے عدلیہ کی آزادی کو شدید نقصان پہنچایا ہے۔

ایک سابق وفاقی وزیر نے جسٹس اطہر من اللہ کے استعفے کو "عدلیہ کی آزادی کے لیے افسوسناک لمحہ" قرار دیا۔

 

وکیل جلیلہ حیدر نے کہا کہ یہ نہ صرف عدلیہ بلکہ پورے نظام کے لیے ایک دکھ بھرا لمحہ ہے۔ ان کے مطابق یہ استعفے صرف دو ججوں کا جانا نہیں بلکہ عدالتی اخلاقیات کی کمزوری کی علامت ہیں۔

وکیل ایمان مزاری نے کہا کہ یہ واقعات اس بات کا ثبوت ہیں کہ نظام کے اندر رہ کر اصلاحات ممکن نہیں۔ انہوں نے ججوں کے استعفوں کو "امید کی کرن" قرار دیا۔

وزیر مملکت برائے قانون و انصاف عقیل ملک نے استعفوں کی تصدیق کی، تاہم یہ واضح نہیں کہ انہیں باضابطہ طور پر قبول کیا گیا ہے یا نہیں۔ اسی دوران ممتاز قانون دان مخدوم علی خان نے بھی اپنے عہدے سے استعفیٰ دے دیا۔

جسٹس اطہر من اللہ نے اپنے استعفے میں لکھا کہ انہوں نے پہلے ہی چیف جسٹس کو اس ترمیم کے عدالتی نظام پر پڑنے والے اثرات سے آگاہ کر دیا تھا۔

جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ وہ اس لیے مستعفی ہوئے کیونکہ ترمیم نے سپریم کورٹ کو کمزور اور عدلیہ کو انتظامیہ کے تابع بنا دیا ہے۔ ان کے مطابق یہ تبدیلیاں "آئینی جمہوریت کی بنیادوں پر حملہ" ہیں۔

انہوں نے لکھا کہ ایسا آئینی ڈھانچہ تاریخ میں کبھی بھی زیادہ دیر قائم نہیں رہا، اور وقت کے ساتھ اس کی اصلاح ہوئی ہے۔

ترمیم کا سب سے بڑا حصہ وفاقی آئینی عدالت کا قیام ہے، جس کی مخالفت سپریم کورٹ کے کئی ججوں اور وکلا نے کی ہے۔ کچھ ججوں نے چیف جسٹس کو خط لکھ کر مکمل کورٹ اجلاس بلانے کا مطالبہ کیا تھا۔

جسٹس سجاد الدین پنہور نے بھی اپنے خط میں کہا کہ ترمیم سے عدلیہ کی خودمختاری، بینچ بنانے کا اختیار، ججوں کی تعیناتی اور عدالتی انتظامی امور متاثر ہوں گے۔

سابق چیف جسٹس جواد ایس خواجہ نے بھی اس ترمیم کو سپریم کورٹ میں چیلنج کر دیا ہے۔ ان کے مطابق یہ حق صرف سپریم کورٹ کا ہے کہ وہ آئینی ترمیم کی قانونی حیثیت کا فیصلہ کرے۔

Comments

https://www.dialoguepakistan.com/ur/assets/images/user-avatar-s.jpg

0 comment

Write the first comment for this!