27ویں آئینی ترمیم کے بعد عدالتی ڈھانچے کیا تبدیلیاں ہوں گی؟
ویب ڈیسک
|
10 Nov 2025
اسلام آباد: حکومت نے سینیٹ سے 27ویں آئینی ترمیم دو تہائی اکثریت سے منظور کروالی جس کے بعد اب اسے قومی اسمبلی سے منظور کروا کے قانون بنایا جائے گا۔
اس 27ویں آئینی ترمیم میں پاکستان کے عدالتی نظام میں نمایاں تبدیلیاں متعارف کروائی گئی ہے جن میں سب سے اہم ایک نئی وفاقی آئینی عدالت کا قیام ہے جو ملک میں آئینی نوعیت کے مقدمات کی سماعت کرے گی۔
جبکہ سپریم کورٹ آف پاکستان کے نام کو تبدیل کر کے وفاقی آئینی عدالت لکھا اور پڑھا جائے گا۔
ترمیم کے مطابق، آئینی عدالت سپریم کورٹ کے اس بینچ کی جگہ لے گی جو آئینی معاملات دیکھتا ہے۔ حکومت کا مؤقف ہے کہ اس اقدام سے سپریم کورٹ پر مقدمات کا بوجھ کم ہوگا اور عوامی مقدمات کی سماعت میں تیزی آئے گی۔
نئی عدالت کے ججز سپریم جوڈیشل کمیشن کی سفارش پر مقرر ہوں گے جبکہ ججز کے تبادلے کا اختیار صدر مملکت سے واپس لے کر اسی کمیشن کو دے دیا جائے گا۔
اس کے علاوہ، ہائی کورٹس کے چیف جسٹس صاحبان کا تبادلہ نہیں ہو سکے گا اور اگر کسی ہائی کورٹ کے جج کو دوسری ہائی کورٹ میں بھیجا جائے گا تو سنیارٹی کو متاثر نہ ہونے دینے کا اصول ملحوظ رکھا جائے گا۔
آئینی عدالت کو آئین کی تشریح اور ازخود نوٹس (سوموٹو) لینے کے اختیارات بھی تفویض کرنے کی تجویز دی گئی ہے۔ اس مقصد کے لیے آئین کے آرٹیکل 184(3) کو ختم کر کے اختیارات نئے سیکشن 175-ای کے تحت آئینی عدالت کو منتقل کیے جائیں گے۔
آئینی ترمیم کے تحت آئینی عدالت میں ٹرانسفر یا ایک ہائی کورٹ سے دوسرے ہائی کورٹ میں ٹرانسفر سے انکار کرنے والے ججز کو ریٹائر تصور کیا جائے گا اور اُس کے خلاف ریفرنس بھی دائر کیا جائے گا۔
اس آئینی ترمیم کے تحت ججز کی ٹرانسفر کا اختیار صدر مملکت سے لے کر سپریم جوڈیشل کمیشن کو دے دیا جائے ہے۔
اس آئینی عدالت کے سربراہ کا حکومت کی جانب سے کوئی اعلان نہیں کیا گیا تاہم امکان ہے کہ جسٹس امین الدین کو یہ ذمہ داری دی جائے گی جبکہ جسٹس مسرت ہلالی اور جسٹس باقر نجفی کے نام بھی زیر غور ہیں۔
اس ترمیم کے تحت بلوچستان ہائی کورٹ کے چیف جسٹس اور سندھ ہائی کورٹ کے سنیئر جج کی بھی عدالت میں تعیناتی کا امکان ہے۔
Comments
0 comment