رحمتوں اور برکتوں کے مہینہ رمضان المبارک میں روزہ دار سحر و افطار کے لیے غذائیت بخش خوراک کا اہتمام کرتے ہیں بالخصوص سحری میں ایسی غذاءکھانے کو ترجیح دی جاتی ہے جو معدے کو بوجھل نہ کرے اور تقویت بھی فراہم کرے۔ مہنگائی کی وجہ سے یوں تو سحر و افطار میں روایتی طور پر استعمال ہونے والی تمام ہی اشیاءکی قیمتوں میں اضافہ ہوا ہے تاہم کھجلہ اور پھینی ایسی روایت ہے جس کے بنیادی اجزاءمیں شامل گھی کی قیمت دگنی ہونے سے پھینی کھجلہ کی قیمت میں بھی نمایاں اضافہ ہو اہے۔ کھجلہ اور پھینی کے بغیر سحری کو ادھورا تصور کیا جاتا ہے، گھی کی مہک والی خستہ کھجلہ پھینی دودھ میں کچھ دیر بھگو کر سحری میں نوش کی جاتی ہے زیادہ تر افراد اس میں مٹھاس شامل کرنے کے لیے چینی کا اضافہ کرتے ہیں اور چینی سے پرہیز کرنے والے مٹھاس کے بغیر ہی لطف اٹھاتے ہیں۔
پھینی اور کھجلہ کی تیاری محنت طلب کام ہے اور اس کے لیے خاص مہارت درکار ہوتی ہے زیادہ تر پنجاب کے مختلف شہروں قصور، ساہیوال اوکاڑہ ، چنیاں اور پتوکی سے ماہر کاریگر کراچی آکر پھینی اور کھجلہ تیار کرتے ہیں۔ کھجلہ پھینی کی تیاری کا کام شعبان سے ہی شروع کردیا جاتا ہے اور رمضان کے آخری عشرے تک جاری رہتا ہے۔ پھینی کی تیاری عام طور پر کارخانوں میں ہوتی ہے جہاں ایک ہی وقت میں کئی افراد اس کی تیاری میں مصروف عمل دکھائی دیتے ہیں۔پھینی میدے سے تیار کی جاتی ہے جس کے لیے پہلے میدے کو آٹے کی طرح خوب گوندھا جاتا ہے جس کے بعد اس میں گھی کی آمیزش کرکے دو سے تین گھنٹے رکھا جاتا ہے تاکہ گھی اچھی طرح میدے میں جذب ہوجائے اس بعد پیڑھے بنائے جاتے ہیں اور پھر اسے ہاتھوں سے بیل لچھوں کی شکل دی جاتی ہے اور آخر میں گھی میں تلا جاتا ہے۔
پھینی کے ساتھ کھجلہ بھی رمضان کی خاص سوغات ہے اور یہ بھی میدے سے ہی تیار کیا جاتا ہے اسے لچھوں کے بجائے پرت دار پیڑھوں کی شکل میں بیلا جاتا ہے جو گرما گرم تیل میں پھول کر خستہ کھجلے کی شکل اختیار کرجاتے ہیں۔ کھجلہ پھینی کو ایک خاص ترتیب سے اوپر تلے دائرے کی شکل میں رکھا جاتا ہے اور ہوا سے بچانے کے لیے پلاسٹک لپیٹ دیا جاتا ہے۔
ماہ رمضان میں جہاں بہت سے کاروبار میں اضافہ ہوتا ہے وہیں کھجلہ پھینی کی خرید و فروخت بھی رمضان المبارک میں کئی افراد کے لیے روزگار کا سبب بنتی ہے۔نمکو اور مٹھائی کی دکانوں کے علاوہ بیکریوں پر بھی کھجلہ پھینی کی فروخت رمضان سے کچھ روز قبل ہی شروع ہوجاتی ہے بہت سے علاقوں میں سڑکوں اور بازاروں میں عارضی اسٹال لگاکر بھی کھجلہ پھینی فروخت کی جاتی ہے۔
گلبہار رضویہ سوسائٹی میں دو نسلوں سے کھجلہ پھینی بنانے والے محمد سلیم کہتے ہیں کہ کھجلہ پھینی دراصل مغل شاہی خاندان کی روایت ہے جو مغل دارالسطنت دہلی سے نکل کر پورے برصغیر میں پھیل گئی اور ہندوستان سے ہجرت کرکے آنے والے اپنے ساتھ اس روایت کا ذوق و شوق ساتھ لے کر آئے۔ محمد سلیم نے کہا کہ کھجلہ اور پھینی دیر سے ہضم ہوتی ہے اور معدے میں دیر تک ٹھہری رہتی ہیں، یہی وجہ ہے کہ سحری میں ان کا استعمال کرنا روزہ کی حالت میں توانا رہنے کے لیے مفید ہے۔ دوسری اہم بات یہ ہے کہ کھجلہ پھینی فوری تیار ہوجاتی ہے اور ہر عمر کے افراد اسے آسانی سے کھاسکتے ہیں دودھ میں بھگونے کی وجہ سے کھجلہ پھینی کی غذائیت اور بھی بڑھ جاتی ہے اور بہت سے روزے دار صرف کھجلہ پھینی سے ہی سحری کرکے روزہ رکھتے ہیں اور دن بھر توانا اور چست رہتے ہیں کھجلہ پھینی استعمال کرنے والوں کو بھوک پیاس کا احساس کم ہوتا ہے اور دیگر لوازمات کی طرح اسے کھانے والوں کو تیل یا مصالحوں کی ڈکاریں نہیں آتیں اور نہ ہی سینے میں جلن محسوس ہوتی ہے۔ معیاری کھجلہ پھینی کی پہچان بتاتے ہوئے انہوں نے کہا کہ اچھے معیار کا گھی استعمال کرنے کی وجہ سے پھینی اور کھجلے سے گھی کی سوہندھی مہک اٹھتی ہے اور یہی اس کے معیار کی پہچان ہے اس کے برعکس ناقص گھی میں گوندھی گئی اور تلی جانے والی پھینی اور کھجلے سے ناقص گھی کی بو آتی ہے جو ناگوار بھی ہوتی ہے۔
محمد سلیم کے مطابق گھی کی قیمت دگنی ہونے کی وجہ سے کھجلہ پھینی کی لاگت بھی دگنی ہوگئی ہے گزشتہ سال تھوک سطح پر کارخانے سے پھینی 240روپے کلو فروخت کی گئی جبکہ رواں سال گھی کی قیمت 220سے بڑھ کر 480روپے کلو ہوگئی اسی لحاظ سے پھینی کھجلہ کی قیمت بھی 480روپے کلو کی سطح پر آگئی ہے۔ شہر میں مٹھائی نمکو کی دکانوں اور بیکریوں پر خوردہ سطح پر وناسپتی گھی میں تیار پھینی 150روپے فی 200تا 250گرام فروخت کی جارہی ہے بڑی دکانوں اور بیکریوں پر خالص گھی میں تیار شدہ پھینی بھی فروخت کی جاتی ہے جس کی قیمت اس سال 240روپے فی 200گرام وصول کی جارہی ہے۔
?>