نومبر 2018میں ڈونلڈ ٹرمپ نے سماجی رابطے کی سائٹ ٹوئیٹر پر جاری کردہ اپنے بیان میں پاکستان کو آڑے ہاتھوں لے لیا تو دنیا اس وقت حیران رہ گئی جب پاکستان کے نو منتخب وزیر اعظم عمران خان نے ڈونلڈٹرمپ کی تنقید کا سخت الفاظ کے ساتھ جواب دے دیا۔ڈونلڈ ٹرمپ کی پاکستان پر لفظی گولہ باری کا یہ پہلا واقعہ نہیں تھا، انھوں نے سال 2018کے آغاز میں پہلی ٹوئیٹ میں ہی پاکستان کو تنقید کا نشانہ بناکر کہا تھا کہ امریکا بے وقوفی سے پاکستان کودہشتگردی کے خلاف جنگ کے لئے امدادی رقم مہیا کرتا رہا اور بدلے میں پاکستان نے کوئی تعاون نہیں کیا۔ اس وقت پاکستان میں مسلم لیگ ن کی حکومت تھی اور شاہد خاقان عباسی ملک کے وزیر اعظم تھے۔ تاہم انھوں نے ماضی کی طرح ’نرم پالیسی‘ اختیار کرتے ہوئے بیان کو ٹالنے کی کوشش کی اور ہر قسم کے تعاون کی یقین دہانی بھی کرائی۔
مگر اسی سال نومبر کے مہینے میں ڈونلڈ ٹرمپ نے ایک بار پھر جب پاکستان کو دہشتگردی کے خاتمے کے لئے تعاون نہ کرنے اور امدادی رقم ہڑپ کرنے کا الزام لگاتے ہوئے شدید تنقید کا نشانہ بنایا تو خلافِ توقع پاکستان کی جانب سے ان کے الزام کو یکسر مسترد کردیا گیا۔ شاید ڈونلڈ ٹرمپ کو امید تھی کہ ماضی کے حکمرانوں کی طرح عمران خان بھی امریکا کے آگے گھٹنے ٹیک دینگے اور ’ڈومور‘ کے مطالبے پر من و عن عمل پیرا ہونگے۔
مگر عمران خان نے تاریخی الفاظ کے ساتھ ٹوئیٹ کا جواب دیتے ہوئے کہا کہ دہشتگردی کے خلاف جنگ میں سب سے زیادہ نقصان پاکستان کو اٹھا پڑا، پاکستان کو کھربوں روپے کا خسارا بھگتنا پڑا اور سب سے بڑھ یہ کہ اس جنگ میں 70ہزار سے زائد پاکستانی اپنی جان گنوا بیٹھے، ہزاروں زخمی یا معزور جبکہ لاکھوں شہری بے گھر ہوچکے ہیں۔ عمران خان نے مزید کہا کہ بس اب بہت ہوا، اب پاکستان دوسروں کی جنگ میں حصہ نہیں لے گا اور وہی کریگا جو اس کے مفاد میں ہوگا۔
ڈونلڈ ٹرمپ کو پاکستان سے اس قسم کے جواب کی توقع نہیں تھی۔ دنیا سمجھ رہی تھی کہ اس ’باغیانہ‘ رویے کے بعد پاک امریکا تعلقات میں خطرناک حد تک فاصلے جنم لے سکتے ہیں اور یہ عمل پاکستان کے لئے خطرے کی گھنٹی ثابت ہوسکتا ہے۔ تاہم حیرت انگیز طور پر ڈونلڈ ٹرمپ کے رویے میں تبدیلی آگئی اور شاید ان کو معلوم ہوگیا کہ اب پاکستان کو ایسی قیادت مل گئی ہے جو ماضی کی طرح کسی قسم کا ’کمپرومائیز‘ کرنے کے لئے تیار نہیں ہوگی۔
ڈونلڈٹرمپ نے ادراک کر لیا کہ پاکستان اب دھمکیوں سے احکامات نہیں بجالانے والا لہٰذا اس نے دوسرا راستہ چننے کا ارادہ کرلیا جو مزاکرات اور تعلقات کی بہتری کا راستہ تھا۔ ڈونلڈ ٹرمپ نے بالآخر عمران خان کو امریکا کے دورے کی دعوت دی۔ عمران خان سادگی کی مثال قائم کرتے ہوئے کمرشل فلائٹ سے امریکا گئے، کسی مہنگے ہوٹل میں قیام کی بجائے واشنگٹن میں موجود پاکستان ہاؤس میں قیام کا فیصلہ کیا، دورے میں چند وزراء کوساتھ لے گئے، ساتھ جانے والے صحافی بھی اپنے خرچے پر گئے اور یوں یہ پاکستان کی تاریخ میں کسی بھی حکمران کا سستا ترین امریکی دورہ ثابت ہوا۔
ڈونلڈ ٹرمپ سے ملاقات سے قبل پاکستان تحریکِ انصاف کا واشنگٹن ڈی سی میں منعقدہ جلسے نے دنیا میں ہلچل مچادی، دنیا بھر سے بیرون ملک مقیم ہزاروں پاکستانی جلسے میں شریک ہوئے۔یہ جلسہ امریکا سمیت دنیا کے لئے پیغام تھا کہ عمران خان پاکستان کے مقبول ترین لیڈر بن چکے ہیں اور عوام ان کا ہر جگہ پرتپاک استقبال کرتی ہے۔ اس جلسے کے بعد امریکی حکومت کو بھی اندازہ ہوگیا کہ عمران خان ایک طاقت ور رہنماء کے طور پر ابھر کر سامنے آگئے ہیں لہٰذا اب ان سے صرف عزت سے ہی بات کی جاسکتی ہے۔
پھر وہی ہوا، امریکی صدر نے عمران خان کا شاندار استقبال کیا،پاکستان کو افغان امن عمل میں تعاون کرنے پرشاباش دی، مسئلہِ کشمیر کو حل کرانے کے لئے ثالث کا کردار ادا کرنے کی آفر کی، تجارت میں 20فی صد اضافے کا اعلان کیا، پاکستان اور پاکستانیوں کی تعریف کی، عمران خان کو تحفے میں بلا پیش کیا، صحافی کے سوال پر پاکستان آنے کی خواہش کا اظہار کرتے ہوئے اپنی آمد کو پاکستان کی دعوت سے مشروط کیا اور سب بڑھ کر یہ کہ عمران خان کو پاکستان کا مقبول ترین لیڈر قرار دے دیا۔ڈونلڈ ٹرمپ کی اہلیہ اور امریکا کی خاتونِ اول میلیناٹرمپ نے عمران خان کے ساتھ تصویریں بنائیں اور فخریہ الفاظ کے ساتھ انھیں سوشل میڈیا پر شئیر کردی۔
تاریخ میں پہلی بار نہ ’ڈو مور‘ کا مطالبہ ہوا، نہ پاکستان پر دہشتگردوں کی معاونت کا الزام لگا،نہ افغان امن عمل میں تعاون نہ کرنے کی شکوہ ہوئی اور نہ ہی پاکستان پر کسی قسم کا دباؤ ڈالا گیا۔ یہ سب اب ماضی کا قصہ بن چکے ہیں۔ پاکستان اب صحیح معنوں میں خودمختار ریاست بن چکا ہے اور مملکتِ خدادادِ پاکستان کو ایک خوددار قیادت مل چکی ہے جس کی عزت اور وقار کا خیال رکھنے اور برابری کی بنیاد پر بات کرنے کے علاوہ دنیا کے پاس باقی کوئی آپشن موجود نہیں۔ واقعی میں عمران خان نے وہ کر دکھایا جو کوئی نہ کر سکا اور بالآخر پاکستان اور پاکستان کے مابین برابری بنیاد پر تعلقات کا ایک نیا دور شروع ہوگیا۔