کراچی سے تعلق رکھنے والی 17 سالہ باہمت لڑکی علیشاہ عبد الجمیل نے مہنگائی اور مجبوریوں سے لڑنے کا فیصلہ کرتے ہوئے اپنے والد کا رکشہ سڑک پر خود نکالنے کا فیصلہ کیا۔
عائشہ بتاتی ہیں کہ گھر کی کچھ مجبوریوں کیوجہ سے وہ کفالت کے لیے خود باہر نکل رہی ہیں، اُن کی تین بہنیں ہیں جن کا سہارا بننا ہے۔
انہوں نے بتایا کہ والد نے اپنی زندگی میں رکشہ چلانا سکھایا جبکہ قریبی رشتے دار، اُن کے دوست اور عزیز اس کی مخالفت کرتے تھے مگر والد نے ہمیشہ کہا کہ یہ میرا بیٹا ہے۔
کراچی کے علاقے ڈرگ روڈ کی علیشہ نامی خاتون نے اپنے والد کا بیٹا بن کر رکشہ چلانا شروع کیا ہے، جس کی آمدنی سے وہ گھر کی کفالت اپنے معاشی حالات کو بہتر سے بہتر بنانے کے لیے پر عزم ہے۔
ایک بہن کی کفالت کا چیلنج درپیش تھا تو تعلیم کا سلسلہ منقطع کر کے ایک سال پہلے سے رکشہ چلانا شروع کر دیا۔
رکشہ علیشہ کے والد نے لیکر دیا تھا اسی لیے انہووں نے والد کی یاد میں رکشے پر اشعار لکھوائے جو اس کو ہمت دیتے ہیں اور انھیں پڑھ کر لوگ ان کی ہمت اور حوصلے کو سراہتے بھی ہیں۔
علیشہ کا کہنا تھا کہ وہ دو کمروں کے کرایے کے مکان میں اپنی والدہ اور غیر شادی شدہ بہن کے ساتھ رہتی ہے جبکہ 4 بہنوں کی شادی ہو چکی ہے جو اپنے گھروں میں خوش ہیں۔
علیشہ نے رکشہ چلانے سے متعلق بتایا کہ تعلیم صرف آٹھ جماعت تک حاصل کر سکی اور مختلف فیکٹریوں میں چند ہزار کی ملازمت کی پیشکش کے سوا روزگار کا کوئی وسیلہ نہیں تھا جبکہ خاندان والوں نے بھی کوئی مدد نہیں کی اور ان کھٹن حالات کو دیکھتے ہوئے اس نے رکشا چلانے کا عزم کرلیا۔
علیشہ کے بقول گرمی ہو یا سردی، بارش ہو يا کیسا بھی موسم ہو وہ صبح 8 بجے گھر سے رکشا لیکر نکل جاتی ہیں اور شام 7 بجے تک گھر واپس آجاتی ہیں۔
علیشہ کا کہنا تھا کہ پیٹرول مہنگا ہونے سے کمائی کا بڑا حصہ اس میں لگ جاتا ہے اور جس طرح سے وہ محنت کر رہی ہے اس حساب سے آمدنی کم ہوتی جا رہی ہے لیکن اللہ کا شکر ہے کہ وہ کسی کے سامنے ہاتھ پھیلائے بغیر گھر کا خرچہ پورا کرنے کی کوشش کر رہی ہے۔
والدہ سلمیٰ کا کہنا تھا کہ علیشہ گھر کی واحد کفیل ہے، کبھی کبھی کمائی بہت کم ہوتی لیکن صبر و شکر کرلیتے ہیں۔
انہوں نے بتایا کہ جب میری بیٹی نے مجھے پہلی دفعہ کمائی دی تو میرا سر فخر سے بلند ہوگیا میں نے اپنی بیٹیوں کے ساتھ بھرپور تعاون کیا ہے اور میں چاہتی ہوں کہ ہر بیٹی اپنے ماں باپ کا سہارا بنے۔
?>