ایک کروڑ نوکریاں دینے والے سرکار کی دور حکومت میں جہاں زندگی کے تمام تر طبقات و شعبے بےحد متاثر ہوگئے تو وہیں خیبر پختونخوا میں سینکڑوں بھٹہ خشت کارخانے بھی شدید بحران کا شکار ہیں۔
آج سے چند سال قبل پختونخوا میں 1200 سے زائد بھٹہ خشت کے کارخانے چل رہے تھے لیکن اس میں اب آدھے سے زائد بند پڑے ہیں۔ خراب معاشی صورتحال اور بڑھتی ہوئی مہنگائی کی صورتحال تو پوری قوم کے سامنے ہے لیکن جب کوئلہ اور اینٹ میں استعمال ہونے والی مٹی کی قیمتیں بڑھنا شروع ہو گئیں تو کئی کاروباری حضرات یہ پیشہ چھوڑنے پر مجبور ہوگئے جسکی وجہ اخراجات بڑھ گئے۔ مہنگا ہونے کے باعث بھٹہ خشت کارخانے مالکان اب سندھ سے بہت کم مقدرا میں کوئلہ منگواتے ہیں یہی وجہ ہے کہ کوئلے سے وابسطہ کاروباری افراد بھی متاثر ہوچکے ہیں۔
لوگوں کی اینٹ کی خرید وفروخت کی قوت نہیں رہی لہذا بھٹہ خشت کارخانے نقصان میں چلے گئے۔
گزشتہ چار سالوں کے دوران پختونخوا میں آدھے سے زائد کارخانے بند ہوگئے ہیں۔ ایک وقت تھا کہ یہاں اینٹ کی خریداری کیلئے دوبئی، لندن جیسے علاقوں سے لوگ اینٹ لینے آتے تھے لیکن اب اپنے ہی ملک میں لوگوں نے ہر طرح کی آبادی کیلئے بلاک کا استعمال شروع کیا ہے۔ بھٹہ خشت کارخانوں کے مالکان کے مطابق مضبوطی کے حوالے سے اینٹ اور بلاک کی استعمال میں واضح فرق ہے۔ کسی بھی ایک کارخانے کیساتھ 500 سے زائد مزدور وابسطہ ہوا کرتے تھے لیکن جہاں بندش کے باعث لاکھوں مزدور بھی بے روزگار ہوچکے تو وہیں موجودہ چلنے والی کارخانے مالکان نے مزدوروں کی تعداد کافی کم کرادی ہے کیونکہ وہ خود نقصان میں جارہے ہیں۔
ان مالکان کے مطابق اگر ہنگامی طور پر ان کارخانوں کی بندش پر غور نہیں کیا گیا تو مزید کارخانے بھی بند ہوکر نہ صرف ہزاروں لوگ بےروزگار ہو جائیں گے بلکہ ملکی آبادی اینٹ جیسے مضبوط وسیلے سے بھی محروم ہوتے جائیں گے۔
?>